ایک دن اچانک بادشاہ کے سر میں درد اُٹھا۔درد اتنا شدید تھا کہ وہ سر پکڑ کر اپنے بستر پر لیٹ گیا۔
کسی ملک میں ایک رحم دل اور عادل بادشاہ حکومت کرتا تھا،اس کی رحم دلی اور انصاف پسندی کے چرچے ملک بھر میں عام تھے۔رعایا بھی اپنے بادشاہ سے بہت خوش تھی۔ملک میں امن وامان کا دور دورہ تھا،لوگ ہنسی خوشی دن گزاررہے تھے۔
ایک دن اچانک بادشاہ کے سر میں درد اُٹھا۔درد اتنا شدید تھا کہ وہ سر پکڑ کر اپنے بستر پر لیٹ گیا۔شاہی حکیم نے بادشاہ کی نبض دیکھی اور انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ملکہ سے کہا:”بادشاہ سلامت کسی نا معلوم بیماری میں مبتلا ہیں۔
بادشاہ کی پُر اسرار بیماری کی خبر جنگل میں آگ کی طرح ملک بھر میں پھیل جاتی ہے۔ملکہ عالیہ کی طرف سے سارے ملک میں اعلان کرادیا جاتا ہے کہ جو کوئی بادشاہ سلامت کو اس پُر اسرار بیماری سے نجات دلائے گا،اسے ملک کا وزیر اعظم بنا دیا جائے گا۔
وزیر خزانہ بادشاہ سے شدید حسد رکھتا تھا اور خود بادشاہ بننا چاہتا تھا،ایک سازشی ٹولہ اس کے ساتھ تھا۔
ایک دن ایک حکیم نے بادشاہ کا علاج کرنے کی اجازت چاہی ،ملکہ عالیہ نے فوراً اجازت دے دی۔جب حکیم نے بادشاہ سلامت کی نبض دیکھی تو شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ملکہ عالیہ سے علاحدگی میں جاکر کہا:”بادشاہ سلامت کو کوئی پُر اسرار بیماری نہیں،بلکہ انھیں ایسا زہر دیا جارہا ہے ،جو آہستہ آہستہ اپنا اثر کرتاہے،جس سے انسان کا دماغ ناکارہ ہوجاتا ہے اور وہ ہلنے جلنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔
معاف کیجیے گا!مجھے تو ایسا محسوس ہوتاہے،جیسے بادشاہ سلامت کے خلاف کوئی بڑی سازش کی جارہی ہے۔“
ملکہ عالیہ نے حکیم صاحب کی بات بڑے غور سے سننے کے بعد اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا:”آپ جلد از
جلد بادشاہ سلامت کا علاج شروع کریں،میں اس معاملے کو دیکھتی ہوں۔“
حکیم نے کہا:”زہر کا اثر ختم کرنے کی ایک نایاب جڑی بوٹی ہے ،جو صرف کالے پہاڑوں کے دامن میں پائی جاتی ہے،مجھے وہاں پہنچنے میں پندرہ دن لگیں گے۔
“
ملکہ عالیہ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا:”میرے ذہن میں ایک ترکیب آرہی ہے،جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے،کیوں نہ ہم بادشاہ سلامت کو بھی اپنے ساتھ کالے پہاڑوں کی طرف لے چلیں۔اس سے بادشاہ سلامت کی آب وہوا بھی تبدیل ہو جائے گی اور ہمارا قیمتی وقت بھی بچے گا۔ روانگی سے پہلے راستے میں اپنے وفادار سپاہی مورچوں میں بٹھا دیں گے۔
سازشی لوگ بادشاہ کو چند آدمیوں کے ساتھ دیکھ کر ضرور حملہ کریں گے اور جیسے ہی وہ حملہ کریں گے ہمارے سپاہی پیچھے سے ان پر حملہ کردیں گے۔“
”ملکہ عالیہ!آپ کی اسکیم بڑی زبردست ہے۔اس سے سازشی لوگ آسانی سے بے نقاب ہو جائیں گے۔“
حکیم صاحب سازش بے نقاب ہونے تک آپ ہمارے وفادار سپاہیوں کی حفاظت میں رہیں گے۔ انتظامات ہوتے ہی ملکہ عالیہ نے کالے پہاڑوں کی طرف روانگی کا اعلان کردیا،شاہی سواری میں حکیم صاحب کے علاوہ بہت کم لوگوں کو لیا گیا تھا۔
وزیر خزانہ یہ اعلان سن کر بہت خوش ہوا اور اپنے حامیوں سے کہنے لگا:”مبارک ہو!ملکہ عالیہ نے ہماری مشکل آسان کر دی ،اب ہم شاہی سواری پر حملہ کرکے ملک پر قبضہ کرلیں گے۔شاہی سواری آبادی سے نکل کر جنگل سے گزررہی تھی،وزیر خزانہ کے ایک جاسوس نے جو شاہی سواریوں میں شامل تھا۔موقع پاتے ہی لال رنگ کے غبارے فضا میں چھوڑ دیے۔وزیر اسی اشارے کا منتظر تھا،اس نے فوراً اپنے لشکر کو غبارے کی سمت بڑھنے کو کہا۔
تھوڑی دیر بعد ہی وزیر خزانہ اور اس کے ساتھ شاہی سواری کو چاروں طرف سے گھیرنے لگے۔ابھی وہ ٹھیک سے شاہی سواری کا جائزہ بھی نہ لے پائے تھے کہ ان پر چاروں طرف سے تیر برسنے لگے ،تیروں کی بارش اتنی شدید تھی کہ کسی کو سنبھلنے کا موقع نہ ملا۔شاہی فوج جو جنگل میں چھپی ہوئی تھی ،چاروں طرف پھیل چکی تھی۔وزیر خزانہ بد حواسی میں اِدھر اُدھر بھاگ رہا تھا۔
اتنے میں سپہ سالار تیزی سے اس کی طرف آیا۔اسے دیکھتے ہی وزیر خزانہ معافیاں مانگنے لگا:”مجھے معاف کردو ،مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی۔”تمھاری سزا یا معافی کا فیصلہ تو عدالت کرے گی،فی الحال تو عوام کا فیصلہ سن لو۔“
مطلوبہ بُوٹی حاصل کرکے شاہی لشکر دوبارہ شہر میں داخل ہوا۔عوام نے وزیر خزانہ کو پکڑ کر اس کے منھ پر کالک ملی اور گدھے پر سوار کرکے پورے شہر کا چکر لگوایا تاکہ بغاوت کرنے والے کو عبرت ناک انجام پورا ملک دیکھ لے ،اس طرح حسد کی آگ میں جلنے والا وزیر خزانہ خود اپنے کھودے ہوئے گڑھے میں جاگرا۔