URDUINSIGHT.COM

خزانہ کس کا ہے

مونٹی درختوں کی دور تک پھیلی ہوئی جڑوں کے درمیان کھدائی کر رہا تھا کہ اچانک اس کی کدال کسی چیز سے ٹکرائی۔کچھ دیر بعد ایک چھوٹا سا کالے رنگ کا صندوق نمودار ہوا۔خزانہ․․․․!جس کا وہ ہمیشہ سے خواب دیکھتا آیا تھا۔

مونٹی درختوں کی دور تک پھیلی ہوئی جڑوں کے درمیان کھدائی کر رہا تھا کہ اچانک اس کی کدال کسی چیز سے ٹکرائی۔کچھ دیر بعد ایک چھوٹا سا کالے رنگ کا صندوق نمودار ہوا۔خزانہ․․․․!جس کا وہ ہمیشہ سے خواب دیکھتا آیا تھا۔

مونٹی کو چیچک کا مرض تھا۔اس کے چہرے پر تو دانے کم تھے،لیکن اس کی شرٹ کے نیچے بہت زیادہ تھے۔دانوں میں بہت زیادہ خارش ہو رہی تھی۔

کالا صندوق اچھا خاصا میلا تھا اور اس کے قبضوں پر زنگ لگا ہوا تھا۔صندوق کے اندر چار بہت خوبصورت اور بڑے بڑے سنگِ مرمر کے ٹکڑے تھے جن میں مختلف رنگوں کی لکیریں تھیں۔اس میں ایک لکڑی سے بنا ہوا بھالو تھا اور ایک چھوٹی سی چھری جس کا دستہ شاید چاندی کا بنا ہوا تھا․․․․؟․․․․․اور سب سے آخر میں ایک ہار تھا․․․․․ہار میں ہرے نیلے پتھر ایک پرانی،لیکن نازک زنجیر میں پروئے ہوئے تھے۔

”خزانہ،خزانہ!“وہ چلاتے ہوئے پورے گھر میں دوڑتا رہا اور پھر کچن کی طرف بھاگا،جہاں اس کے والدین چائے پی رہے تھے۔

”ارے،یہ کیا ہے؟“اس کے والد نے صندوق اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا اور تجسس سے اسے کھولنے لگے۔جب انھیں ہار نظر آیا اور مونٹی نے انھیں پوری بات بتا دی۔

”اگر اس ہار کا مسئلہ نہ ہوتا تو ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔

“آخر انھوں نے کہا۔

”میرا خیال ہے کہ یہ اچھا خاصا قیمتی ہے۔مجھے لگتا ہے کہ یہ فیروزہ پتھر کا ہار ہے۔فیروزہ چاندی کی چین میں ہے،لیکن آخر یہ وہاں پہنچا کیسے؟“

”اگر ہم جاسوس ہوتے“مونٹی نے کہنا شروع کیا:”تو اس ہار کے مالک کا پتا لگا سکتے تھے۔ہم ان لوگوں سے پوچھتے جو ہم سے پہلے اس گھر میں رہتے تھے۔“

مونٹی کے والد اچانک ہنسے:”یہ موبائل فون کس لئے ہے مونٹی!میں مسٹر ڈیوس سے رابطہ کرتا ہوں۔

ہم نے انہی سے یہ گھر خریدا تھا۔شاید وہ ہمیں کچھ بتا سکیں۔“

اس کے والد نے فون پر بات کرنے کے بعد کہا:”وہ کہہ رہے ہیں انھوں نے جس خاندان سے یہ گھر خریدا تھا،ان کی صرف بیٹیاں ہی تھیں۔“

”لیکن یہ تو لڑکوں کا خزانہ ہے۔“مونٹی نے کہا:”سوائے ہار کے۔“

مسٹر ڈیوس نے یہ گھر کسی مس ڈنبر سے خریدا تھا اور اب وہ انتقال کر چکی ہیں۔

”لیکن ان کی بہنیں تو زندہ ہیں۔“مونٹی کی والدہ نے کہا:”ان میں سے ایک مسز کیسلی ہیں جو بیکری میں کام کرتی ہیں۔وہ شاید ہمیں کچھ بتا سکیں۔وہ کل کام پر آئیں گی۔“

”اب فون کرنے کی باری تمہاری ہے۔“مونٹی کے والد نے اپنی بیگم کو موبائل فون پکڑواتے ہوئے کہا:”ویسے بھی تم ان مسز کیسلی کو جانتی ہو۔“

مونٹی کی والدہ ان سے رابطہ کرکے بات کرنے لگیں۔

مسز کیسلی کی آواز بہت تیز تھی اور مونٹی نہایت آسانی سے ان کی آواز سن سکتا تھا۔

”فیروزے کے پتھروں کا ہار؟اوہ،نہیں نہیں،ایسا تو کچھ بھی نہیں تھا۔نہیں․․․․میں نہیں جانتی۔ہم وہاں بچپن سے رہ رہے تھے،آپ مسٹر ملز،ہوراتیو ملز سے معلوم کریں تو شاید کچھ معلوم ہو سکے۔بشرطیکہ وہ زندہ ہوں۔میرے والد سے پہلے وہ اسی گھر میں رہتے تھے۔

مونٹی کے والد نے اس سے کہا:”اب فون کرنے کی باری تمہاری ہے۔تمہارا جاسوسی کا سارا کام ہم کیوں کریں؟دیکھو یہ رہا ملز صاحب کا نمبر۔

مونٹی نے مضبوطی سے موبائل فون پکڑا اور نمبر ملایا۔کچھ دیر تک ٹوں ٹوں گھنٹی بجتی رہی پھر ایک بوڑھی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی:”ہیلو؟“

”کیا مسٹر ہوراتیو ملز بات کر رہے ہیں؟“مونٹی نے پوچھا۔

”جی ہاں۔“سرسراتی ہوئی آواز میں کہا گیا۔

مونٹی نے انھیں بتایا کہ وہ کون ہے اور کہاں رہتا ہے اور یہ کہ اسے ایک دفن شدہ چیز باغ سے ملی ہے،اس لئے وہ ان لوگوں کو ڈھونڈ رہا ہے جو ان سے پہلے اس گھر میں رہتے تھے۔

”کس قسم کی چیز؟“ مسٹر ملز نے پوچھا۔

”یہ ایک چیز ہے جو میں نے باغ میں کھود کر نکالی ہے۔“مونٹی نے احتیاط سے کہا۔

”یقینا ۔“مسٹر ملز نے کہا۔

مجھے جو ایک چھوٹا سا لوہے کا صندوق ملا ہے،اس میں سنگِ مرمر کے ٹکڑے ہیں؟اور ایک چھوٹی چھری بھی۔“مونٹی بولا۔

”اور ایک فیروزے کا ہار بھی۔“مسٹر ملز نے تیزی سے کہا:”میں ابھی وہاں پہنچ رہا ہوں۔“

”میرا خیال کہ آپ کو یہاں نہیں آنا چاہیے۔“مونٹی نے اُداسی سے کہا:”اس وقت تک نہیں جب تک آپ کو چیچک نہ ہو چکی ہو۔

موبائل پر ایک عجیب سی آواز سنائی دی۔یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا مسٹر ملز ہنس رہے ہیں۔

”مجھے چیچک نکل چکی ہے۔“وہ بولے:”لیکن اس کے بارے میں میں تمہیں اس وقت بتاؤں گا جب میں تم سے ملوں گا۔میں بس آ ہی رہا ہوں۔“

”مسٹر ہوراتیو ملز ایک پرانی،لیکن صاف ستھری،چمک دار گاڑی میں آئے تھے۔مسٹر ملز بھی اپنی گاڑی کی طرح بوڑھے،لیکن پُروقار شخصیت کے مالک تھے۔

انھوں نے مونٹی کے والدین کو مسکرا کر دیکھا اور مونٹی سے ہاتھ ملایا:”کیا تم ہی مسٹر مونٹی فورسٹ ہو؟“

انھوں نے پوچھا۔مونٹی نے سر ہلایا۔وہ بہت پُرجوش تھا۔

”صندوق میز پر رکھا ہوا تھا۔مسٹر ملز نے جیب سے عینک نکالی اور صاف کرنے کے بعد لگائی اور صندوق کو غور سے دیکھنے لگے۔وہ اپنے کمزور اور بوڑھے ہاتھوں سے اسے چھوتے ہوئے بولے:”ہاں،یہ وہ ہی صندوق ہے۔

“انھوں نے چھوٹا سا چاقو اُٹھایا:”کبھی یہ میرا تھا۔“

”مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔“مونٹی کی والدہ نے کہا:”میں آپ کے لئے چائے لاتی ہوں۔پھر آپ آرام سے بیٹھ کر ہمیں مونٹی کے اس خزانے کے بارے میں بتائیے گا۔“مسٹر ملز کرسی پر بیٹھ گئے۔جب چائے کا کپ ان کے سامنے رکھ دیا تو انھوں نے اپنی کہانی سنانا شروع کی۔

”یہ گھر میرے والد نے تعمیر کروایا تھا۔اس وقت ارد گرد کوئی اور گھر نہ تھا بس ایک ہمارا گھر تھا جو جنگل اور کھیتوں کے درمیان بنا ہوا تھا۔جہاں اب گیراج ہے،وہاں اس وقت ایک بڑا درخت ہوا کرتا تھا اور ایک بڑا سا باغ جو دور تک پھیلا ہوا تھا۔میں اور میرے بھائی اس درخت پر خوب کھیلا کرتے تھے۔ہمارا پسندیدہ کھیل تھا،قذاق بننا۔ہم اس درخت کی شاخوں پر بندروں کی طرح اُچھلتے رہتے تھے۔

ہم تین بھائی تھے۔تھامس،ریگنالڈ،اور میں۔

ایک دن سب سے بڑے بھائی تھامس نے کہا کہ وہ ایک خزانہ دفنائے گا اور ہم دونوں چھوٹے بھائیوں کو اسے تلاش کرنا ہو گا۔ہم تینوں نے اس خزانے میں ایک ایک چیز رکھی،لیکن ہمارا خزانہ پھر بھی خالی خالی لگ رہا تھا،تب تھامس نے ایک بہت بے وقوفانہ حرکت کی۔وہ چپکے سے امی کے کمرے میں گیا اور ان کا ایک ہار اُٹھا کر لے آیا۔

وہ واقعی اصلی خزانہ لگ رہا تھا۔پھر تھامس جا کر یہ صندوق چھپا آیا،لیکن جیسا کہ تم دیکھ سکتے ہو ہم اس خزانے کو تلاش نہیں کر پائے۔“

”لیکن تھامس کو تو یاد ہو گا کہ اس نے خزانہ کہاں چھپایا ہے؟“مونٹی نے اُلجھتے ہوئے کہا:”اگر آپ اور ریگنالڈ اسے نہیں بھی ڈھونڈ پائے تو بھی تھامس جانتا تھا کہ وہ کہاں ہے۔“

”یہی تو اصل بات ہے۔

“مسٹر ملز نیس نے مزے سے کہا۔”تھامس یاد نہیں رکھ پایا۔ہم نے بڑے درخت پر چڑھتے ہوئے ڈھونڈنے کی ابتداء کی۔ہم نے سوچا کہ شاید اس نے خزانہ یہاں چھپایا ہو۔تھامس بھی ہمارے ساتھ درخت پر بیٹھا تھا اچانک وہ پھسل کر اونچے درخت سے نیچے گر پڑا۔اس کے دماغ پر شدید چوٹ آئی۔

ہم سب ایک دو دن تک اس کے لئے بہت پریشان رہے،لیکن پھر اس کی طبیعت بہتر ہونا شروع ہو گئی۔

پر ایک پریشانی ہوئی وہ یہ تھی کہ وہ اس حادثہ کے بعد وہ کوئی ایک بات بھی یاد نہیں رکھ پایا۔اسی لئے ہم میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ خزانہ کہاں ہے۔“

”یہ باڑ کے نیچے بانس کے پودوں کے درمیان دبا ہوا تھا۔“مونٹی نے بتایا۔

”اوہ اچھا۔“مسٹر ملز نے سر ہلاتے ہوئے کہا:”یہ بانس اسی وقت لگائے گئے تھے اور تمہیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس وقت ڈھونڈنے کے لئے جگہ بھی اچھی خاصی وسیع تھی۔

اگر تم بُرا نہ مانو تو میں یہ ہار اپنی پوتی کے لئے لے جانا چاہوں گا،لیکن میں چاہتا ہوں کہ باقی خزانہ تم اپنے پاس رکھو مونٹی!یہ بہت قیمتی خزانہ تو نہیں،لیکن یہ بہت پرانا ہے اور یادگار ہے۔“

مونٹی نے ایک لمبی سانس لی:”میرا خیال ہے کہ یہ ایک نہایت شان دار خزانہ ہے اور بہت خاص بھی ہے۔یہ ایک ایسا خزانہ ہے،جسے بہت سالوں پہلے کچھ لڑکوں نے چھپایا تھا۔

اگر آج مجھے کبھی کوئی خزانہ یوں دفنانا پڑے تو وہ بھی اسی قسم کا ہو گا۔“

اس نے مڑ کر پہلے اپنے والدین کو اور پھر مسٹر ملز کو دیکھا۔“اور یہ بھی کتنی دکھ کی بات ہے کہ اس وقت جب مجھے چیچک نکلی ہوئی ہے۔مسٹر ملز،میں ڈرتا ہوں کہ یہ کہیں آپ کو نہ لگ جائے۔“

مسٹر ملز مسکرائے اور بولے:”مجھے چیچک کے جراثیم نہیں لگیں گے۔دراصل۔“جب انھوں نے بولنا جاری کیا تو عینک کے پیچھے ان کی آنکھیں چمک رہی تھیں:”بات یہ ہے کہ تھامس،ریگنالڈ اور مجھے چیچک نکل چکی ہے۔اسی لئے ہم تینوں اس دن گھر پر تھے،جب تھامس نے خزانہ دفنایا تھا۔

Facebook
Telegram
WhatsApp
Print

URDUINSIGHT.COM

خبروں اور حالات حاضرہ سے متعلق پاکستان کی سب سے زیادہ وزٹ کی جانے والی ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر شائع شدہ تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔